
![]() |
جلوہ گاہِ دوست |
|
ذکر کرنے کا طریقہ
ذکر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بائیں جانب سینے کے اندر انسان کا دل واقع ہے۔ اس دل میں ذکر اسم ذات اللہ کا خیال رکھا جائے۔ جس طرح ہمیں پیاس لگتی ہے تو ہمارا خیال پانی کی طرف ہوجاتا ہے۔ مگر ہم زبان سے پانی پانی کا لفظ نہیں پکارتے۔ بس خیال سارا پانی کی طرف رہتا ہے۔ تو جس طرح پیاسے آدمی کا خیال و توجہ پانی کی طرف رہتا ہے اسی طرح یہ خیال دل میں پکانا چاہیے کہ میرا دل اللہ اللہ پکار رہا ہے۔ اس دوران زبان خاموش رہے بلکہ بہتر ہے کہ تالو کے ساتھ چسپاں رہے اور اس ذکر کا خیال ہر وقت و ہر لمحہ رکھنا چاہیے۔ اس کے لیے نہ وضو کی شرط ہے، نہ جسم کی پاکائی کی شرط ہے، نہ لباس کے پاک ہونے کی شرط ہے۔ تنہائی بھی شرط نہیں ہے۔ چوبیس گھنٹے آپ اپنے کام میں مصروف رہیں۔ کاروبار کرتے رہیں، سفر میں ہوں یا حضر میں، بازار میں ہوں یا گھر میں، صرف دل میں یہ خیال ہونا چاہیے کہ دل اللہ اللہ پکار رہا ہے۔ اس دوران اگر کوئی دوسرا خیال آئے تو اسے دفع کریں۔ کیونکہ خود خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے رِجَالُ لا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللہ اللہ کے بندے وہی ہیں جن کو دنیاوی کام کاج اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا۔ تو اس طرح کا خیال چند دن رکھنے سے دل اللہ کے ذکر میں جاری ہوجاتا ہے اور اس ذکر کے کرنے سے دل پاک و صاف ہوجاتا ہے اور دل میں خشیت و خوف خدا پیدا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے شریعت محمدی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر عمل آسان ہوجاتا ہے۔ حضرت خواجہ احمد سعید نقشبندی قدس سرہٗ تحریر فرماتے ہیں کہ اسم ذات کا ذکر اس طرح کرنا چاہیے کہ مرید و سالک زبان کو تالو سے لگائے اور دل کو تمام خیالات سے خالی کردے۔ پھر جس بزرگ سے ذکر لیا ہے، ان کے متعلق یہ سمجھے کہ وہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر دل کی زبان سے اللہ، اللہ کہے، یعنی اللہ، اللہ کا مفہوم اپنے خیال میں رکھے اور یہ خیال کرے کہ میں اس ذات پر ایمان لایا جو تمام صفات کاملہ سے متصف ہے اور تمام صفاتِ ناقصہ سے پاکیزہ ہے۔ اکثر اوقات اسی ذکر پر ہمیشگی کرے یہاں تک کہ دل ذاکر ہوجائے۔ حضرت امام ربانی مجدد و منور الف ثانی قدس سرہٗ فرماتے ہیں۔
|