
فہرست | الطاہر شمارہ 51، جمادی الاول 1429ھ بمطابق جون 2008ع |
حدود اللہمشتاق احمد پنہورقسط نمبر 4۔ (گذشتہ قسط)
ارسطو نے کہا تھا قانونِ سلطنت بعض انسانی حقوق کی حفاظت تو کرسکتا ہے لیکن انسانوں کو نیک نہیں بناسکتا۔ (نظام سلطنت) یہ صرف اسلامی نظام حیات کے برپا کرنے اور اسکے بعد اسلامی تعزیرات کے نفاذسے ممکن ہے۔ بیشتر اسلامی حدود وتعزیرات کا تعلق حقوق العباد کے تحفظ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی حقوق کوہربات پر فوقیت دی ہے۔ عہد نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ کے دور میں ہی نہیں اسکے بعد بھی گذشتہ تمام صدیوں میں جب بھی اور جہاں بھی جس قدر اسلام زندگیوں میں آیا دنیا نے اس کے ثمرات اور پھل دیکھے۔ آج بھی ہمیں اور دنیا کو اسلام کی دعوت عام ہے۔ ہمیں ان ثمرات وبرکات کا انداہ نہیں کیونکہ ہم نے نہ عملاً اسلامی نظام حیات دیکھا ہے اور نہ ہی اسلامی معاشرہ کے اندر اسلامی تعزیرات کا نفاذ دیکھا ہے۔ جس معاشرے اور جس خطے میں یہ رائج ہوں وہاں امن وامان کی صورت میں اور جرائم کے یکسر خاتمہ کے نتیجے جو خیر وبرکت ہوتی ہے ہم جرائم اور گناہوں کی دنیا میں گھرے ہوئے لوگ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ چنانچہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’دور ونزدیک حدود اللہ کو قائم کرو، کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف تمہیں اس سے نہ روکے۔ (ابن ماجہ) اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اللہ کے شہروں کے اندر حدود اللہ میں سے کسی حدکا قائم کرنا چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔ ‘‘ (ابن ماجہ، نسائی، مشکوٰۃ) گویا اسلامی سزاؤں کا نافذ ہونا باران رحمت سے زیادہ بارآور اور ثمر بار ہے۔ زنا کی سزا: اسلام عصمت وعفت کو سب سے بڑی قیمتی متاع قرار دیتا ہے اور اس کی حفاظت کو ہر شیء پر مقدم رکھتا ہے۔ چنانچہ زنا اسلامی معاشرہ میں انتہائی گھناؤنا اور بدترین جرم ہے اور اسلامی تعزیرات میں اس جرم کی سخت ترین سزا مقرر ہے۔ اسلامی نظام حیات میں نہ صرف زنا واجب التعزیر ہے بلکہ اس کے اسباب اور محرکات بھی ممنوع ہیں۔ اسلام ہر اس راہ کو بند کرتا ہے جو انسان کو اس گناہ کیطرف لے جاتی ہو۔ مثلا بے پردگی وبے حیائی، اختلاط مردوزن، مخلوط مجالس، زیب وزینت کی نمائش، زیورات کی جھنکار وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام کردیا ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہے چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے ’’وَلاَ تَقْرَبُوا الزِّنَا اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَآئَ سَبِیْلاَ‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل 17۔۔ آیت 32) اور زنا کے قریب مت جاؤ بلاشبہ وہ بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے۔ اس آیہ کریمہ میں زنا سے اس طرح روکا گیا ہے کہ زنا تو نہ کرو بلکہ زنا کے قریب ہی نہ جاؤ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زنا ایک بہت بری چیز ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’وَالَّذِیْنَ لَایَدْعُوْنَ مَعَ اللہ اِلٰہًا آخَرَ
وَلَایَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہ اِلَّابِاالْحَقِّ
وَلَایَزْنُوْنَ، وَمَنْ یَفْعَلْ ذَالِکَ یَلْقَ اَثَامًا۔ یُّضٰعَفْ
لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ اْلِقَیامَۃِ وَیَخْلُدُ فِیْہِ مُہَانًا۔ ‘‘ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہیں کرتے اور اس جان کو قتل نہیں کرتے جس کے قتل کرنے کو ماسوا حق کے حرام کردیا ہے۔ اور زنا نہیں کرتے اور جو ایسے کرے گا وہ (اپنے کیے کی)سزا پائے گا۔ قیامت کے دن اس کو دوہرا (دوگنا) عذاب دیا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ ذلیل وخوار رہے گا۔ ان آیات میں تین کبیرہ گناہوں کو ذکر کیا گیا ہے پہلا یہ کہ شرک نہ کرو، دوسرا یہ کہ کسی کو ناحق قتل نہ کرو اور تیسرا یہ کہ زنا نہ کرو۔ اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی ان تین گناہوں کو بیان کیا گیا ہے اور زنا کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب بڑا گناہ کونسا ہے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’(سب سے بڑا گناہ)یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے لیے شریک ٹھہراؤ حالانکہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے ‘‘میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے۔ فرمایا’’یہ کہ تم اس خوف سے اپنے بچہ کو قتل کردو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھائے گا۔ ‘‘ میں نے پوچھا پھر کون سا گناہ بڑا ہے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم) شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت اگر زنا کے مرتکب ہوں تو ان کی سزا رجم(سنگسار) ہے یعنی ان کو پتھر مار مار کر ہلاک کردیا جائے گا۔ اور اگر غیر شادی شدہ مرد اور غیر شادی شدہ عورت زنا کریں تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو درے ( کوڑے ) لگائے جائیں گے۔ اسی طرح اگر بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت بدکاری کریں تو ان کو بھی سنگسار کیا جائے گا۔ ابتداء اسلام میں زنا کی سزا یہ تھی کہ زنا کرنے والی شادی شدہ عورتوں کو تا حیات گھروں میں بند کردیتے تھے۔ اور کنواری لڑکیوں یا غیر شادی شدہ مردوں کو زنا کرنے پر زجر و توبیخ اور ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اور جو تمہاری عورتیں زنا کریں تو ان پر چارمردوں کی گواہی طلب کرو، پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند کردو تاوقتیکہ ان کو موت آجائے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے راستہ بیان کردے۔ اور تم سے جو لوگ زنا کریں تو تم ان کو (ڈانٹ ڈپٹ سے ) اذیت پہنچاؤ، پس اگروہ توبہ کرلیں اور ٹھیک ہوجائیں تو ان کو کچھ نہ کہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا، بہت رحم کرنے والا ہے۔ (سورۃ النسآء۔ ۴۔۔ آیت۱۵۔ ۱۶) ابتداء اسلام میں زنا کی سزا یہی تھی لیکن بعد میں اس سزا کو منسوخ کردیا گیا۔ چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے سیکھ لو، مجھ سے سیکھ لو۔ اللہ تعالیٰ نے ان (زنا کرنے والوں ) کا راستہ مقرر کردیاہے۔ اگر کنوارہ شخص کنواری لڑکی سے زنا کرے تو اس کو سوکوڑے مارو اور ایک سال کے لیے شہر بدر کردو اور اگر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت سے زنا کرے تو اس کو ایک سو کوڑے مارو اور رجم (سنگسار) کرو۔ (مسلم، ابوداؤد) زنا کی سزا کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلَاتَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَافَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہ اِنْ کُنْتُمْ تُؤُمِنُوْنَ بِ اللہ وَالْیَوْمِ الاٰخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (سورۃنور۔ ۲۴۔ آیت۔ ۲) زانی عورت اور زانی مرد ان دونوں میں سے ہرایک کو سو سودرے (کوڑے )مارو۔ اور اللہ تعالیٰ کے دین (شرعی سزا کے نفاذ) میں ان پر ترس نہ کھاؤ اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور چاہیے کہ ان کو سزا دینے کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ موجود ہو۔ یہ سزا کنوارے اور زانی اور زانیہ کی ہے۔ کوڑوں کی جسمانی سزا کے علاوہ بدکار مردوں اور بدکار عورتوں کی دوسری عبرتناک سزا معاشرتی مقاطعہ (بائیکاٹ) ہے کہ اب وہ اسلامی معاشرہ میں گھٹیا درجے کے افراد شمار ہوں گے۔ پاکباز اور شریف رشتوں سے محروم رہیں گے۔ گویا درودیوار ان سے نفرت کریں گے اور شریف لوگ انہیں منہ نہ لگائیں گے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے ’’ اَلزَّانِیْ لَایَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْمُشْرِکَۃً وَّالزَّانِیَۃُ لَایَنْکِحُہَآ اِلَّازَانٍ اَوْمُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَالِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ۔ ‘‘ (سورۃ نور۲۴۔ آیت۔ ۳) ’’زانی مرد صرف زانیہ عورت یا مشرکہ عورت سے نکاح کرسکتاہے اور زانیہ عورت بھی بدکار مرد یا مشرک کے سوا کسی کے نکاح میں نہیں آسکتی اور یہ اہل ایمان پر حرام ہے۔ ‘‘ زنا کی سزا بھگتنے کے بعد یہ ان کے لیے دوسری معاشرتی سزا ہے کہ زانی، زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ، زانی اور مشرک سے نکاح کریں گے۔ یعنی زانی اور زانیہ ان کے علاوہ اور کسی کے نکاح میں نہیں آسکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صریحاً فرمادیا ہے کہ یہ مؤمنوں پر حرام ہیں۔ (جاری ہے)
|